حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بانی قرآن وعترت فاونڈیشن حجة الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی نے بتایا کہ جب سے حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای جب سے بھیک پور،بہار،ہندوستان کی سرزمین پرقایم ہوا تو پھرہرسال ٢٩صفرسے ۴ربیع الاول تک اس عنوان پربھیک پور میں پروگرام منعقدہواکرتاہے، اس پروگرام کایہ اہم عنوان اپنے بہترین شان وشوکت کے ساتھ اس سرزمین پرمنعقد ہوتاہے جسمیں،ایک قاری قرآن سب سے پہلے تلاوت کرتاہے،پھرایک ناظم نظامت کوہرروزدیے گیے مصرعہ پرشعرپیش کرتاہے اورتحلیل گراپنے جزئی موضوع پرمطالب کوپیش کرتاہے پھر خطابت اور نوحہ و ماتم۔
انہوں نے کہا کہ ۱۴۴۴ہجری میں اس پروگرام کامصرعہ!قرآن کوحسین بلندی دکھائیں گے(قافیہ دکھائیں گے) رکھا گیا۔اس سال کے اس عنوان پر اہم خطیب برجستہ بھی تشریف لارہے ہیں اور اپنے اس موضوع پر سامعین کے قلوب کو روشن اور منور کیا کرینگے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یقینا!کربلا قرآن کی عملی تفسیر ہے، تفسیر دو طرح سے ہوتی ہے ایک تفسیر جو رائج ہے، کاغذ پر لکھی جاتی ہے، ایک آیت کے ذیل میں ایک مفسر اور ایک عالم اس آیت کی وضاحت کرتا ہیکہ اس آیت سے مراد کیا ہے، یہ ایک طریقہ ہے تفسیر کا، اہل سنت اور شیعہ علما نے بہت سی تفسیریں تحریر کی ہیں، بہر حال تفسیر کے اس قسم کی ضرورت ہے اور ہر زمانے اس طرح کی تفسیر منظر عام پر آنی چاہیئے ، علامہ طباطبائی کہ جنہوں نے اب تک لکھی جانے والی تفسیروں میں سب سے بہترین تفسیر لکھی ہے کہ جس کا نام تفسیر المیزان ہے،فرماتے ہیں کہ قرآن کے لیے ہر بیس سال کے بعد ایک نئی تفسیر کی ضرورت ہے، کیوں ضرورت ہے؟ اس لیے کہ زمانہ تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے، حالات بدل رہے ہیں، ترقی ہو رہی ہے، نئے نئے موضوعات پیدا ہو رہے ہیں، تقاضے بدل رہے ہیں، بیس سال پہلے کوئی تقاضا تھا تو اب کوئی تقاضا ہے اور قرآن کو ہر زمانے کے تقاضوں کا جواب دینا ہے، معصوم نے فرمایا: ''القرآن یجری مجری الشمس و القمر،، نئی تفسیر کی ضرورت ہے آج کی نسلوں کا جواب دینے کے لیے اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے۔تو ایک یہ طریقہ ہے قرآن کی تفسیر کا کہ کاغذ پر، کتاب کی صورت میں اور جلدوں میں تحریر کیا جائے لیکن توجہ فرمائیں کہ قرآن کاغذوں پر نازل نہیں ہوا ہے، کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ہم نے یہ قرآن کاغذوں پر نازل کیا ہے، ہم نے یہ قرآن جلدوں میں نازل کیا ہے، نہیں بلکہ یہ قرآن دلوں پر نازل کیا گیا ہے، قرآن لوح محفوظ سے نکل کر تو قلب نورانی پیغمبر پر آگیا، پیغمبر نے اس کی تعلیم بھی فرما دی لیکن یہ قرآن کاغذوں سے نکل کر میرے اور آپ کے دل تک بھی آنا چاہیئے، اگر قرآن کاغذ سے کاغذ میں منتقل ہوتا رہے اور ہمارے دلوں میں نہ آئے تو قرآن کاغذوں میں گھومتا رہے گا لیکن ہم ہدایت سے محروم رہیں گے گویا خدا کو پہلے سے علم تھا، چوں سابقہ آسمانی کتابوں کا بشر نے جو حال کیا،اس آسمانی کتاب کے بارے میں بھی خدا کو علم تھا کہ لوگ قرآن کو کاغذوں میں ہی گھماتے رہیں گے اپنے دلوں میں نہیں لائیں گے لہذا خداوند عالم نے ایسا انتظام کی کہ قرآن کا ایک نسخہ لفظی نازل کیا کہ یہ الفاظ ہیں جو تمہاری زبانوں پر جاری رہیں گے ، انھیں بے شک کاغذوں پر لکھتے رہو ان کی تفسیر کرتے رہو، ان کی تلاوت کرتے رہو، ان کو لحن کے ساتھ پڑھو، ان کو صوت کے ساتھ پڑھو،اس کو مردوں کے لیے پڑھو، ختم قرآن کا جلسہ رکھو،اس کے ساتھ جو کرنا ہو کرو لیکن اس قرآن کا تمہارے دلوں میں آنا مشکل ہے لہذا خدائے متعال نے ساتھ میں قرآن کا ایک اور نسخہ بھی تدوین فرمایا، قرآن کے ساتھ معصوم کوبھی خلق فرمایا، اگر کوئی پوچھے کہ معصوم کس کو کہتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ معصوم قرآن کی مجسم تصویر کو کہتے ہیں فرمایا کہ ایک طرف میں نے قرآن نازل کیاتو ایک طرف میں انسانِ کامل پیدا کیااور پھر پیغمبر[ص] نے فرمایاکہ قرآن و اہلبیتؑ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے، نہیں ہو سکتے یعنی نہیں ہو سکتے، اگر کوئی کرنا بھی چاہے تو یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے، کسی مقام پر ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے، کسی منزل پر ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے،کیوں جدا نہیں ہو سکتے؟ اس لیے کہ دو حقیقتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو نسخے ہیں ۔۔
جب مولاناموصوف سے سوال ہوا اس پروگرام میں جواہم نکات عنوان مذکورہ پرپیش ہوتے ہیں توکیاممکن ہے اسکی ایک جھلک بھی آپ بیان فرمائیں؟
تو پھر مولانا نے کہا! محقیقین اورعلماےکرام جواس پروگرام میں شرکت کرتے ہیں وہ خود بھی اس نوارانی پروگرام سےبہرہ مندہوتےہیں اوردوسروں کوبھی سیراب کرتے ہیں جیساکہ فرماتے ہیں دانشورحضرات ۔۔۔۔۔۔۔۔آج تک ہم نے تاریخ سے کربلا کو مشاہدہ کیاہے، جو کربلا ہم ذاکرین سے سنتے ہیں جو کربلا کتابوں میں لکھی ہوئی ہے وہ سب آئینہ تاریخ میں لکھی ہوئی ہیں یہ لکھا ہوا ہے ک سید الشہدا مدینہ سے کیسے روانہ ہوئے مکہ کب پہونچے، مکہ سے کب تشریف لے گئے، کس تاریخ کو کربلا پہونچے، کربلا پہونچنے کے بعد کیا واقعات رونما ہوئے، تاریخ کے آئینہ میں آج تک کربلا آج تک بیان ہوئی ہے لیکن کربلا تاریخ کے آئینہ میں سمجھ میں نہیں آتی ، کربلا کو اگر سمجھنا ہے تو تاریخ کے ساتھ ساتھ کربلا کو قرآن میں بھی دیکھنا ہوگاقرآن بتائے گا کہ کربلا میں کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ قرآن اور عاشورہ کا رابطہ، قرآن اور کربلا کا رابطہ، سید الشہدا نے جو کچھ کیا، آپ قرآن پڑھ کر دیکھے تو سارا قرآن مقتل نظر آتا ہےایک بزرگ استاد کا جملہ ہے کہ قرآنی انسان اس کو نہیں کہتے جو حافظ قرآن ہو جو مفسر قرآن ہو، جو قرآن کثرت سے پڑھتا ہو بلکہ قرآنی انسان اس کو کہتے ہیں کہ اگر اس کی حالات زندگی لکھی جائے تو وہ قرآن کی تفسیر بن جائے۔ اگر ہم قرآن سے آشنا ہوں کہ قرآن کیا کہہ رہا ہے تو معلوم ہوگا کہ قدم قدم پر قرآن کربلا میں موجود ہے،ہجری میں جب تحریک کربلا کا باقاعدہ آغاز ہوا تو سید الشہدا نے عالم اسلام کی تمام بڑی اور نمایاں اور برجستہ شخصیتوں کو خط لکھا کہ اس سال حج پر تم لوگ ضرور آو، نہ اس لیے کہ حج کرکے ثواب کما کے جاو بلکہ اس لیے کہ میں اس سال تمہیں حج کرنے کے بجائے حج بچانے کا طریقہ بتاوں گا، میں اس سال تم کو دین بچانے کا سلیقہ سکھاوں گا۔امام حسین علیہ السلام کا ایک بہت ہی مشہور خطبہ ہے بنام خطب المنی لوگوں کو اکٹھا کرکے فرمایاکہ: میں جو کچھ کہتا ہوں سنو، سمجھو اور لکھو اور جب حج سے فارغ ہو کر اپنے اپنے علاقوں میں واپس جاو تو لوگوں سے کہو )ابھی یزید بر سر اقتدار نہیں آیا تھا، ایک مختصر سی تمہید کے بعد فرمایا: مجھے پہچانو! میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جس کے فضائل سے قرآن بھرا ہے، امیرالمومنینؑ کے ایک ایک فضائل کا تذکرہ کیا اور ان سے یہ بھی کہا کہ جہاں مجھ سے غلط بیانی ہو جائے اٹھ کر مجھے ٹوک دینا کہ یہ صحیح نہیں ہے، لیکن اتنے بڑے مجمع میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو حسینؑ سے کہتا حسین یہ بات غلط ہے، سب نے تسلیم کیا کہ ہاں ہم نے بھی یہ سنا ہے، اس کے بعد حضرت نے فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ خدا نے علمائے یہود پر کیوں لعنت بھیجی ہے؟ (قرآن میں مختلف اسباب ہوئے ہیں) خدا نے علمائے یہود کو اس لیے لعنت کی کہ ان کے سامنے لوگ منکرات اور فحشا کے مرتکب ہوتے تھے لیکن یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتے تھے، پھر فرمایا: اے خدا! تو شاہد رہنا کہ اس زمانے کا سب سے بڑا منکر یہ ہے کہ جو تخت حکومت پر فاسد جمع ہے اور فرمایا: جو ایک فاسق و فاجر کو امت مسلمہ پر حاکم دیکھ کر چپی سادھے رہے قرآن کی لعنت کا وہ حقدار ہے، پھر فرمایا: خدایا! گواہ رہنا، میں متاع دنیا کے لیے نہیں نکلا ہوں، میں صرف تیرے حدود کی دفاع کے لیے، تیرے دین کی حفاظت کے لیے نکل رہا ہوں۔:
اب ذرا غور کریں کہ قرآن کس طرح حسین کے قدم بہ قدم چل رہا تھا، قرآن آواز دیتا ہے کہ ''وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ ُمَّة یَدْعُونَ ِلَی الْخَیْرِ وَیَْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ'' حسین نے فرمایا: میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے نکل رہا ہوں، قرآن نے جسے خیر امت کہا ہے وہ میں ہوں اور میرے اصحاب اور میرے اہلبیت ہیں۔ قرآن اور حسین دونوں ساتھ ساتھ کربلا آئے اور ایک لمحہ اور ایک پل کے لیے بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے، اسی لیے حضرت امت سلمہ نے جب حسین کے قاتلوں کو مدینہ میں دیکھا تو کہا کہ تم لوگوں نے قرآن کو شہید کر دیا، تم نے انبیا شہید کئے۔ جب ان لوگوں نے بڑے تعجب سے پوچھا: ہم نے قرآن کب شہید کیا؟ تو فرمایا: کیا حسین قرآن نہیں ہیں۔ حسین قرآن مجسم ہیں، حسین کے اہلبیت اور اصحاب قرآن مجسم ہیں،یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ حسین کربلا جائیں اور قرآن کربلا نہ جاتا، خدا گواہ ہے کہ قرآن کربلا میں موجود ہے، جب اہل بیت کا کوئی جوان شہید ہوتا، گویا قرآن کا ایک پارہ شہید ہوتا، جب کوئی چادرچھینی جاتی،جب کوئی خیمہ جلتا تو گویا قرآن کی سورتوں کوآگ لگائی جاتی، عزادارو! آج اگر قرآن کسی مسلمان کی نظروں کے سامنے گر جائے تو وہ بے چین ہو کر دوڑتا ہے، اسے احترام سے اٹھاتا ہے، چومتا ہے، آنکھوں سے لگاتا ہے کربلا کی سرزمین پر حسین پشت فرس سے نیچے گرے یعنی قرآن زمین پر گرا، لیکن اتنے مسلمانوں میں کوئی ایک بھی نہ تھا جو آگے بڑھ اس گر تے ہوئے قرآن کو اپنی آغوش میں لیتا، ہاں ایک دکھیاری ماں تھی جس نے اس قرآن مجسم کو اپنی باہوں میں لیا اور آواز دی ولدی ولدی ارے میرے لال! تجھے ذبح کیا تھا تو کم سے کم ایک قطرہ پانی دے دیا گیا ہوتا۔ وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا َیَّ مُنقَلَبٍ یَنقَلِبُون